Jump to content

User:Ismailsabrikhushab

From Wikipedia, the free encyclopedia

مقدمہ بسم اللہ الرحمنٰ الرحیم انیسوی1900 صدی کے خراسان خزنوی سے ماخوذ ایک عظیم الشان دالستان ہے ایمان انصاف اور محبت کی روشنائی سے لکھی ایک بہادر مرد مجاہد عالم فاضل باعمل کی کہانی۔ جس نے اپنی ثابت قدمی اور جرت سے نہ صرف اپنے قبیلہ بلکہ عالم اسلام کا پرچم بلند کیا اور پاک ایشیاء کی تقدیر بدل ڈالی۔ اس خانہ بدوش پٹھان قبیلے کو ایک ایسے وطن کی تلاش تھی کہ جہاں ان کی نسلیں پروان چڑھ سکیں ۔ اس خانہ بدوش پٹھان قبیلے کے بڑے مشعر صدر دین اخونزادہ کے پوتے حافظ ابراہیم اخونزادہ کے بیٹے محمد اسماعیل صابری ؒ نے عالم اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنے خاندان اپنے قبیلے اور اپنے عزیز و عقارب اور اپنی مال و جان کو خطرے میں ڈال کر اپنے اقابرین کے ساتھ انگریز فرنگی، قادیانیوں اور دیگر اسلام شرپسند دشمن عناصر کو الٰہی کلمۃاللہ کی خاطر جہاد کرکے شکست دی۔ آپ کے اس خانہ بدوش پٹھان قبیلہ کا تعلق اوغوزترک قبائل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ جس کی مثال تاریخ کے اوراق سے ملتی ہے کہ جب جب اوغوز قبائل و اوغوز سلاطین وقت کے ساتھ ساتھ چلتے رہے تو آپ کا خاندان اور قبیلہ اوغوز خاندان اور انکے قبائل کے ساتھ ساتھ چلتا رہا بلآخر آپ کے دادا صدر دین اخونزادہ تقریبااٹھارویں 1800صدی کے آخر میں افغانستان کے علاقہ خزنوی خراسان سے حجرت کرکے ہندستان کے علاقہ پنڈدادن رہائش اختیار کی اور کچھ عرصہ وہاں رہائش پزیر رہے ۔ اور پھرآپ کے دادا صدر دین اخونزادہ وہاں سے حجرت کرکے صوبہ خیبر پختون خواہ کے علاقہ جنوبی وزیرستان کے گاؤں کلاچی چدھڑڑ میں قائم مقام ہوئے ۔ جہاں اس مرد مجاہد عالم فاضل عالم باعمل ولی کامل امام النحو استاد العلماء شیخ التفسیر والحدیث پیر طریقت رہبر شریعت حضرت مولانا محمد اسماعیل صابری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 25 جون سن 1908 میں ہوئی آپ کے دادا صدردین کے 3 بیٹے تھے محمد دین احمد دین اور حافظ ابراھیم اخونزادہ اور آپ حافظ ابراہیم کی آل سے ہیں۔ یہ وہ شخصیت تھی کہ جس نے 1931 تحریک پاکستان میں اپنے اقابرین کے ساتھ مل کر حصہ لیا ۔ یہ وہ شخصیت تھی کہ جس نے 1965 کی جنگ میں حصہ لیا اور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ یہ وہ شخصیت تھی کہ جس نے ختم نبوت ﷺ تحریک چلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہ شخصیت تھی کہ جس نے تحریک ریشمی رومال کے لیے بہت سی قربانیاں دیں اور تحریک ریشمی رومال کا اہم رکن بنے۔ یہ وہ شخصیت تھی کہ جس نے قادیانیوں کو کافر قرار دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہ شخصیت تھی کہ جس نے 350 افراد پر مشتمل ایک قبیلہ کو مسلمان کیا۔ اور یہ وہ شخصیت تھی کہ جس نے 13 سال کے عرصہ میں دارالعلوم دیوبند انڈیا کے مدرسہ کے تمام دورہ حدیث شریف طلبا ءمیں سے اول پوزیشن حاصل کی اورآپ کو امام النحو کا لقب ملا۔ یہ وہ شخصیت تھی کہ جس کوشیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمت اللہ علیہ کے کرتا مبارک میں ان کی وصیت کے مطابق شیخ مدنی ؒ کا کرتا پہنا کر کفن دیا گیا۔ اپ کے والد حافظ ابراہیم فارسی کے ماسٹر تھے۔اور چدھڑڑ کی مسجد میں امامت کراتے تھے۔اپ تین بھائی تھے اسحاق عبداللہ اور اسماعیل اپ بچپن ہی سے نہایت ذہین فتین تھے 13 سال کی عمر میں پرائمری د مڈل تعلیم مکمل کی اس زمانہ میں ہائی سکول کہیں دور دراز ایک آدھ تھا تو اس لیے مڈل کی تعلیم پر اکتفا کیا یہ اس وقت کی بات ہے جب مڈل کی تعلیم ایم اے کا درجہ رکھتی تھی اپ کے والد حافظ ابراہیم کی خواہش تھی کہ مڈل کے بعد دین کا علم حاصل کریں اور بعض بڑے بزرگوں کی خواہش تھی کے آپ کو مزیدعصری علوم کی ڈگریاں حاصل کرکے کہ اپ کو پٹواری یا تحصیلدار بنایا جائے۔ اپ کے والد مولانا ابراہیم رحمت اللہ علیہ جوایک اسکول میں فارسی کے ٹیچر تھے اور امامت اور خطابت کرتے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ میں اپنے بیٹے کو ہر صورت میں بہت بڑا عالم بنانا چاہتا ہوں اس تکرار کے بعد فیصلہ ہوا کہ قرہ اندازی کی جائے اور قرہ اندازی کے لیے فوری پرچیاں ڈالی گئیں ۔ ان پرچیوں پر عالم پٹواری تحصیلدار لکھ کر ایک بچے سے کہا کے پرچی نکالو تو اٹھانے والے بچے نے تین مرتبہ عالم کے نام کی پرچی اٹھائی تو اس کے بعد پھر تمام بزرگوں نے اتفاق رائے سے دعا ءکے ساتھ جھوک عمرہ کے مدرسہ میں داخلہ دلوایا یہ جھوک عمرہ موضع درابن صوبہ خیبر پختون خواہ میں ابتدائی تعلیم مکمل کی اس کے بعد پھر واں بچھراں ضلع میاں والی تشریف لائے اور مشہور مدرسہ مولانا غلام یاسین رحمۃ اللہ علیہ کی تلمییز شاگرد بنے شیخ التفسیر ولی کامل مولانا حسین علی رحمت اللہ علیہ کے پاس زیادہ آنا جانا تھا اپ ان کی نہایت سادگی اور علم و عمل تقوی سے بہت متاثر تھے فرماتے تھے کہ عالم ایسا فاضل نہیں دیکھا جو طالب علموں کو بھی پڑھائے اور خود زمینوں میں حل بھی چلائے یعنی زمینداری کرے بس زیادہ انے جانے کی وجہ سے مولانا حسین علی میں چند وظائف بتلائے اور باولے کتے اور سانپ کے کاٹنے کا دم کرنا بتلایا اور اس اذن کی اجازت دی یہاں یہ بات بھی ذکر کر دوں کہ ایک وقت ایسا ایا کہ پیر مہر علی شاہ گول ڑہ شریف اور مولانا حسین علی رحمت اللہ علیہ کا مناظرہ میں آمنہ سامنا ہوا تو اپ نے اس موقع پر تلاوت کی اور مولانا صالح محمد نے نعت پڑھی مناظرہ سوال و جواب میں ختم ہو گیا۔ واں بچھراں ایسے مشکل اور کٹھن حالات میں دینی علوم میں عبور حاصل کیا جس کی کہیں مثال نہیں ملتی اس زمانے میں نہ بجلی تھی اور نہ ہی کوئی اور سہولیات تو دیا جلایا جاتا تھا خال خال کسی گھر میں ایک آدھ لال ٹین تھا اگر اپ نے مطالعہ کرنا ہوتا تو اپ اور باقی طلباء اگر کہیں شادی کی روشنی دیکھتے تو کتابیں اٹھا کر وہاں شادی والوں کے آس پاس روشنی میں بیٹھ کر کتابوں کا مطالعہ کرتے اور علم حاصل کرتے۔ واں بچھراں سے موقوف علیہ یعنی 7 سال کا علم حاصل کرنے کے بعد آپ سہارن پور انڈیا کے بہت بڑے مدرسہ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا وہاں آپ شیخ العرب ولعجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمت اللہ علیہ اور دیگر علماء کرام سے درس حدیث کے لیے انتہائی خصوصی توجہ اور محبت و احترام کے ساتھ موءادبانہ انداز میں بیٹھے کر علم حاصل کرتے ۔ سال کے اختتام پر شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنی رحمت اللہ علیہ نے حکم دیا کہ اپ دورہ حدیث کے امتحانات کے لیے مظاہر العلوم سہارنپور تشریف لے جائیں اور اپ شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمت اللہ علیہ نے ایک خط حضرت شیخ الحدیث محدث عصر زکریا رحمت اللہ علیہ کو لکھا جس میں شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمت اللہ علیہ نے اپ کے لیے مدرسہ میں داخلہ کے لیے حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ سے خصوصی سفارش کی اور داخلہ دلوایا سہا رنپور صحاتہ نستہ اور حدیث شریف دونوں مدارس کےبہت بڑے ممتاز علماء کرام کے شاگرد بننے کی سعادت حاصل ہوئی عربی فارسی عبارت پڑھنے میں اپ کا کوئی ثانی نہ تھا اس لیےآپ کو شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور باقی اساتذہ کرام نے متفقہ طور پر اپ کو امام النحو کا لقب عطا کیا اپ اسماعیل رحمت اللہ علیہ نے دارالعلوم دیوبند اور مظاہد علوم سہارنپور صحاتہ نستہ اور درس نظامی کی ڈگریاں حاصل کی اور اس سال کے آخر میں اپ نے امتحانات پاس کر کے تمام طلباء میں سے اول پوزیشن حاصل کرکے سند وصول کی پھر اس کے بعد کچھ دن دلی کی جامع مسجد میں جمعہ کے خطبات دیے اور اسی دوران تقریبا ایک سال تک سید حسین اور مدنی رحمت اللہ علیہ کی خانقاہ حسینیہ میں خدمات سر انجام دیتے رہے آپ بچپن سے ہی انتہائی ذہین و فتین تھے اور جو بھی سبق ہوتا وہ دل چسپی اور خشوو خضو کے ساتھ دل لگا کے پڑھتے اور یاد رکھتے اسی وجہ سے آپ سید حسین احمد مدنی رحمت اللہ علیہ اور شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمت اللہ علیہ کے شاگرد خاص تھے ایک دن سید حسین احمد مدنی رحمت اللہ علیہ نے علماء اتفاق کی مجلس برخاست ہوتے ہوتے وقت حضرت سید حسین احمد مدنی رحمت اللہ علیہ نے اپنا مبارک کرتا اتار کرحضرت مولانا محمد اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ کو بطور ہدیہ دیا تصوف و سلوک کی منازل آپ نے حضرت شیخ مدنیؒ کی خانقاہ حسینیہ میں طے کیں فراغت کے بعد آپ حضرت شیخ مدنیؒ کے حکم کے مطابق حضرت مفتی محمد شفیعؒ کے ساتھ خوش آب تشریف لائے یہ پاکستان بننے سے پہلے ہندوستان کے علاقہ پنجاب کے قدیم شہر میں مین بازار خوش آب میں جامع مسجد کی بنیاد رکھی اور حضرت مفتی محمد شفیع ؒ کے زیر نگرانی شعبہ قطب و فقہ و تفسیر و حدیث شریف بلخصوص صرف و نحّو پڑھانےکا شوق پورا کیا عربی گرائمر صرف و نحّو میں اتنا تجربہ اور مہارت تھی کہ سیبویہ، شروالضاء ، شرح قطروندا نصاب سے ہٹ کر قطب پڑھاتے رہے یو ں آپ نےیہ سب علومے دینیہ پڑھا کر ثابت کردیا عربی گرائمر میں آپ پی، ایچ ، ڈی کرچکے ہیں ۔ اور اسی دوران آپ دریائے جہلم کے عین دائیں کنارے ایک درخت کے نیچے قرآن و حدیث شریف کا درس بھی دیا کرتے تھے وہاں موجود ایک قبیلہ جو کہ تقریبا 350 کے قریب افراد پر مشتمل تھا ان کو کلمہ توحید پڑھا کر مسلمان کیا ۔ دریائے جہلم کے کنار ے آپ درس و تدریس کرتے تھے کے ایک دن آپ کی ملاقات رام چندھڑ سنگ سے ہوئی یہ رام چندھڑ ایک سکھ تھا آپ نے اس سے مسجد مدرسہ اور اپنے ذاتی گھر کے لئے جگہ خریدی تو رام چندھڑ نے ایک تاریخی جملہ کہا کے مسجد کیا مندرکیا چلیں آپ کو زمین دوں پھر اس سک نے آپ کو کرم کے ساتھ پیمائش کرکے جگہ دی پھر اس میں سے مسجد اور مدرسہ کے پیسہ نکال کر آپ سے کہا کے آپ تقریبا 300 روپے دے دیں۔ یہ بات ہے تقریبا سن 1926 سے 1930 کے درمیان جامع مسجد ابوبکرصدیقؓ بگڑوالی خوشاب کی سنگ بنیاد رکھی ۔اور رام چندھڑ کو پیسے اد اکئے ۔ یہاں آپ کے تقریبا 16 بچے پیدا ہوئے جن میں سے 11 بیٹیاں اور 5 بیٹے تھے۔آپ کے 3 بیٹے پیدا ہوتے ہی فوت ہوگئے ان میں سے 2 جڑواں تھے ۔ اسکے بعد ایک بیٹا پیدا ہوا جسکا نام ابوالخیر تھا یہ بیٹا آٹھ سال کی عمر انتقال کرگیا اسکے بعد سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ اور دیگر علماء کرام کی دعاوں سے اللہ تعالی ٰ نے قاری سعید احمد اسد اخونزادہ عطاءکیا۔ اور آپ کی 11 بیٹیوں میں سے 4 زندہ رہیں اور باقی فوت ہوگئیں۔ سن 1928 میں آپ نے مدرسہ جامع عریبہ تعلیم الاسلام خوشاب کی بنیاد رکھی یہاں سے آپ نے درس و تدریس شروع کی ۔ اور پھر آپ نے طلباء کو داخلہ کے لئے ایسا اشتہار مضمون بنایا کہ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ عظیم الشان درس و تدریس والا کام لینا تھا کہ اشتہار کی تحریر پڑھ کر طلباء دور دراز علاقے سے حصول تعلیم کیلئے افغانستان اور کشمیر سے جھوک در جھوک آنا شروع ہوگئے ۔ اور آپ کے اولین شاگردوں میں سے مولانا اختر محتم مدرسہ امینیہ دلی انڈیا ،مولانا قاضی عطاءاللہ جنوبی وزیرستان ٹانک ، مولانا قاضی عبدالکریم کلاچی ، ڈاکٹر ظہوراحمد اظہر لاہور ، مفتی احمد سعید گنجیالوی ، مولانا صادق سندراقہ ، مولانا غلام یٰسین ناڑی ، حکیم حافظ محمد اسحاق جنوبی وزیرستان ٹانک، بلبل پنجاب قاری عبدالرحمٰن، صاحبزادہ عبدالمجید شاہ پڑینیالہ ڈیرہ اسماعیل خان، مولانا محمد بخش کراچی اور دیگر علما؍ کرام نے موقوف علیہ تک ان شاگردوں کو اسباق پڑھائے۔ جامعہ عریبیہ تعلیم الاسلام خوشاب ہذٰانے سیکڑوں ممتاز علماءکرام پیدا کیئے جو اندرون اور بیرون ملک دینی خدمات سرانجام دیتے رے حضرت مفتی احمد سعید مرحوم پر اتنی محنت کی کہ بقول مفتی احمد سعید کے والد مفتی محمد شفیع ؒ کہنے لگے کہ حضرت شیخ امام النحّو ؒ نے میرے بیٹے کو اتنی محنت اور کاوش سے پڑھایا کہ میرا بیٹا مفتی احمد سعید مجھ سے آگے نکل گیا اور بہت بڑا عالم فاضل اور محدث بنا۔ اور اسکے بعد آپ نے تحریکوں میں حصہ لینا شروع کردیا ۔ آپ امام النحّو ؒ نے تحریکوں کا مرکز خاکصار تحریک جو کہ علامہ مشرقی نے چلائی ۔ سن 1935 میں خاکصار تحریک کے بانی علامہ مشرقی کی تحریر کردہ کتاب مولوی کا غلط مذہب کے جواب میں کتابچہ تحریر کیا اور اس تحریک بیلچہ والوں کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے کیئے یہاں تک کہ خاکصار تحریک دم توڑ گئی ۔ تحریک ریشمی رومال یا جنگ آزادی یہ پاکستان بننے سے پہلے یہاں پاک و ہند پر انگریز فرنگی کا دور تھا جس میں 56 ہزار کے قریب علماءکرام کو انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا ۔اور اس تحریک کے مین مرکزی کردار ابوالکام آزاد ، سید حسین احمد مدنی ، سید عطاءاللہ شاہ بخاری اور آپ ؒ نے اہم کردار ادا کیا ۔ آپ راز دانی مدنی ؒ تھے آپ ؒ کو حکم ہو اکے سید حسین احمد مدنی ؒ کے پیغامات باقی علماء کرام تک پہنچائیں اور اس تحریک کو آگے بڑھا کر چلائیں۔ یو آپ ؒ نے ہندوستان کا چپہ چپہ گلی گلی کوچہ کوچہ باقی علماء کرام تک تحریک کے پیغامات پہنچائے ۔ اکثر آپ ریل گاڑی وغیرہ پر سفر کرتے اور بھیس بدل بدل کر ہاتھ میں ڈنڈا لمبا کرتا سرپرٹوپی اور اللہ ہو اللہ ہو ملنگ بابا کے بھیس میں یہ مشکل کام سرانجام دیتے۔ تحریک ختم نبوت ﷺ1953 میں آپ نے بھر پور حصہ لیا امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کے دست راس رہے اتنے پور زور احتجاج اور مضاہرے کئے کے آپ کا جلوس جب تھانہ خوشاب سے گزرتا تو پولیس تھانہ کے دروازے بند کرکے تھانہ میں موجود رہتی اور جلوس کا سامنہ نہ کرتی ۔ آپ ؒ کے صاحبزادے قاری سعید احمد اسد اخونزادہ کے دور میں آج سے کچھ عرصہ پہلے عبدالمجید اعوان ٹرانسپوٹر کے بھائی کی وفات پر فاتحہ خانی کےلیئےحضرت شیخ امام النحّو کے صاحبزادے گوشہ جگر حضرت مولانا قاری سعید احمد اسد اخونزادہ تشریف لے گئے تو وہاں پر ایک عمر رسیدہ ریٹائرڈ ایس، پی جس کے ہاتھ بڑھاپے اور کمزوری سے کانپ رہے تھے اس نے سوال کیا کہ یہ بندہ جو فاتحہ خوانی کے لئے آیا یہ کون ہے تو حاجی عبدالحمید نے حضرت شیخ امام النحّو کے صاحبزادے قاری سعید احمد اسد اخونزادہ کا تعارف کروایا کہ ان کے والد حضرت شیخ امام النحّو مولانا محمد اسماعیل ؒ تھے ۔ ریٹائر، ایس، پی بزرگ کہنے لگے 1953 میں میں بطور ایس،ایچ ، او تعینات تھا اور حضرت شیخ امام النحّو ؒ آپ کے والد کا اتنا رعب تھا کہ ہم تھانہ کے دروازے بند کرکے تھانہ میں چپے رہتے اور کسی اتنی جرت اور بہادری نہیں ہوتی کہ آپ شیخ امام النحّو کے جلوس کوئی روک سکتا ۔ آپ حضرت شیخ امام النحّو ؒ تحریک ختم نبوتﷺ میں 109 مجاہدین ختم نبوت کے ساتھ ملتان جیل میں تقریبا 9 ماہ پابند سلاسل رہے یہ تحریک جماعت احرار کی قیادت میں چلی ماڈل ٹاون لاہور کی سڑک پر 10 ہزار شہداءختم نبوت ﷺ کے مجاہدین کے پاک خون سے رنگین ہوئی۔ 1965 کی جنگ آپ ؒ کا اہم کردار آپؒ نے خوشاب میونسپل کمیٹی میں جہاد کانفرنس منعقد کی جس میں اہم شخصیات علماء کرام نے بھرپور شرکت کی اس کانفرنس میں آپؒ نے آخری خطاب دیا جس میں قرآن مجید کی ایک آیت کریمہ پڑھی اور کچھ شعر ارشاد فرمائے اور خطاب میں آپ ؒ نے عوام النساس کو پاک آرمی کا ساتھ دینے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ مسلمان آج بھی اگر کامل قرآن ہوجائے تو ہر مشکل آسان ہوجائے۔ اگر بیدار اسکا جزیہ ایمان ہوجائے توہندوستان کیا پوری دنیا پاکستان ہوجائے۔ گورنر جرنل عتیق الرحمٰن کی زیر صدارت جہاد کانفرنس تھی وہ اتنے متاثر ہوئے اورآپ ؒ کو دعوت دی کہ آپ میرے ساتھ محاز اور اگلے مورچوں کا دورہ کریں حضرت شیخ امام النحّو ؒ نے دعوت قبول کرلی۔ اور کشمیر کے اگلے مورچوں محاز تک پہنچے اور پاک فوج کے مجاہدین کو جذبہ جہاد کے متعلق بیان کیا اور جہاد کے لئے ابھارہ بہت سارا سازو سامان لے کر پاک فوج کے مجاہدین میں تقسیم کیا۔ اور بہت سی دعائیں کیں جس کے نتیجہ میں انڈین آرمی کو موکی کھانے پڑی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم و نصرت سے 17 دن کی یہ جنگ پاک فوج نے دشمن کا بھاری نقصان کرکے جیتی ۔ جس میں چھ 6 سو ٹینک مجاہد افواج نے جان کی بازی لگاکر روکے اور دشمن کو پسپائی ہوئی۔ حضرت شیخؒ پاک فوج کا گلہ نہیں سنتے تھےہمیشہ دعائیں کرتے تھے۔ آپ ؒ کے صاحبزادہ حضرت مولانا قاری سعید احمد اسد اخونزادہ نے ایک جلسہ کے موقع پر اعلان کیا کہ اگر میری جماعت عالمی مجلس تحظ ختم نبوت اور جمیعت علماءاسلام میں کوئی ایسا شخص رکن نہیں بن سکتا جو محب وطن نہ ہو۔اور پاک فوج کے متعلق نازیبہ الفاظ کہےاور انتہا پسند جماعتو ں سے رابطہ رکھے۔ آپ ؒ کے صاحبزادے قاری سعید احمد اسد اخونزادہ کی پیدائش سن 1947 پاکستان بننے کے بعد محلہ لاہوری گیٹ مسجد بگڑوالی خوشاب کے ساتھ ہوئی ۔ اور پھر ایک وقت ایسا آیا کے سن 1968 میں جرنل ایوب کی عامریت کے خلاف فیصلہ کن تحریک چلائی جس میں حضرت شیخ ؒ کے صاحبزادے حضرت قاری سعید احمد اسد بھی شامل ہوئے۔ عملا انھوں نے سیاست میں پہلا قدم رکھا ایوب خان مستعفی ہوئے اور یحیٰ خان نے جیسے ڈکٹیٹر شکل میں اقتدار سمبھالا سن 1970 میں جمیعت علماء اسلام پی پی حلقہ 9 سے حضرت شیخ ؒ نے کھجور کے نشان پر ایکشن لڑا ۔ سن 1974 میں تحریک ختم نبوت کی تیسری تحریک کا آغاز ہوا پارلمنٹ کے اندر مفکر اسلام مفتی محمود ؒ اور دیگر علماء کرام شامل تھے یہ تحریک اسمبلی سے شروع ہوکر سڑکوں پر آئی روزانہ کی بنیاد پر جلوس نکالے گئے۔ یہ کامیاب تحریک تھی جس کے نتیجہ میں قادیانی غیر مسلم قرار دئیے۔ ساتھ ہی ختم نبوت کی تحریک چلی مطالبہ تھا۔ گستاخانہ رسول ﷺکے خلاف کوئی قانون بنایا جائےآرڈیننس 298/295 کا عملا نفاذ جرنل ضیاءالحق نے کی بدقسمتی سے اس قانون کی زد میں آنے والوں کو یہودی لابی بشمول امریکہ دباؤ دیکر چھڑا لیتے اور مغربی جرمنی قادیانیوں کےلئے پناہ گاہ بن گیا۔ قلیدی آسامیوں پر قانون کی دہچیاں بکھیرتے ہوئے قادیانی بدقسمتی سے اعلیٰ اودھوں پر فائز ہوتے چلے آرہے ہیں۔ 1977 میں آپ ؒ نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور نظام مصطفیٰ ﷺ کے نفاذ کا مطالبہ کیا اس تحریک میں درجنوں کارکن گرفتار ہوئے 22 مئی 1977 میں آپ ؒ کے صاحبزادے قاری سعید احمد اسد کی جرنل اسٹور کی دکان جو کہ خوشاب مین بازار ہسپتال والی مسجد کے سامنے تھی پی پی کے جیالوں نے لوٹ لی کر جلا ء دی اور جمعیت علماء اسلام کے دیگر کارکنوں کو زودوکوب کیا جرنل ضیا؍اللہ حق نے مارشل لاء نافض کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ یہ تیسرا مارشل لاء تھا ۔ قادیانیوں کے ساتھ فیصلہ کن مناضرے قادیانیوں کے ساتھ جامع مسجد مین بازار والی خوشاب میں مناضرہ ہوا جس میں قادیانیت کی طرف سے مربی عمر خطاب جس کو آپ شیخ امام النحّو ؒ عمر خراب کے نام سے پکارتے تھے اسکے ساتھ مناضرہ ہوا اس مناضرہ کی صدارت مفتی محمد شفیع ؒ نے فرمائی اور وفات عیسیٰ پر قادیانیوں نے دلائل دیئے حیات عیسیٰ پر آپ شیخ ؒ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل مدللل بیان کیا ۔ قادیانی مبلغ عمر خراب کو آڑے ہاتھوں لیا یہ مناضرہ معرکہ آپ حضرت شیخؒ نے قادیانیوں کو شکست دے کر جیت لیا حضرت مفتی محمد شفیع ؒ نے جذبات میں آتے ہوئے سیکڑوں روپے کی تھیلی قادیانی مبلغ کے سینہ پر دے ماری اور کہا اب دے جواب میرے شاگرد خاص کا اور انعام لے ۔ آپ ؒ نے باقی زندگی درس و تدریس او رذکرو اذکار میں گزاری انسانوں کے ساتھ ساتھ آپؒ نے جنات کو بھی اسباق پڑھاتے رہے ایک رات ایک عجیب واقعہ پیش آیا کہ آپ ؒ کے مدرسہ کا قاری حافظ محمد رفیق ؒ کی آدھی رات کو جب آنکھ کھلی مسجد میں تو دیکھا کے بہت بڑے بڑے قدآور سفید لباس میں جنات آپ ؒ کے سامنے بیٹھ کر سبق پڑھ رہے تھے حافظ محمد رفیق ؒ یہ دیکھ کر بہت گھبرا گئے ۔ تو درس کے بعد آپ شیخ ؒ نے حافظ رفیق کو بتایا کہ وہ جنات میرے شاگرد تھے آپ پریشان نہ ہوں ۔ یہاں ایک اور عجیب واقعہ آپ کی زندگی کا ذکر کرتا چلوں کہ آپ نے ایک بلا پالا ہوا تھا جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتا تھا جب آپ مسجد جاتے یا گھر آتے تو وہ بھی آپ کے ساتھ ساتھ رہتا کہ اچانک ایک تحجد کی نماز مسجد میں پڑھ رہے تھے کہ ایک خوفناک کالے رنگ کا سانپ نکل آیا آپ نے نماز نہیں توڑی وہ سانپ اتنا قریب پہنچ گیا کے آپ کو کاٹنے والا تھا کہ اچانک آپ کا پالا ہوا بلا اس نے سانپ اچانک حملہ کردیے اور سانپ کو مار دیا وہ سانپ اتنا ذہریلا تھا کہ بلا اندھا ہوگیا ۔ آپ ؒ کا کتب خانہ آج بھی مسجد بگڑوالی کے مدرسہ میں موجود ہ ہے وہاں اس کتب خانہ میں اکثر جنات کو محسوس کیا گیا ہے۔ آپ ؒ نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مال مویشی کا بھی کام کرتے رہے ۔ آپ ؒ اتنے بڑے عالم فاضل ہونے کے باوجود اپنے صاحبزادےقاری سعید احمد اسد کو جامع مدنیہ لاہور ، سراج العلوم سرگودھا سے علم حاصل کروایا ۔ آپ کے صاحبزادے کے استاد یہ تھے جن کے نام مولانا مفتی احمد سعید سراج العلوم سرگوددھا اورشیخ الحدیث مولانا خداء بخش اور قاری عبدالسمیع تھے اور موقوف علیہ تک اپنے بیٹے کو خود پڑھایا ۔ آپؒ کے صاحبزادے قاری سعید احمد اسد نے پرائمری تا مڈل تعلیم ایم، سی ، ہائی اسکول میں حاصل کی اور 10 دسمبر 1966 کو آپؒ کے صاحبزادے کی شادی جنوبی وزیرستان ٹانک میں حکیم اسحاق کی بیٹی سے ہوئی ۔ یو آپؒ کے 4 پوتے اور 4 پوتیاں ہوئیں ۔ جس میں ادریس احمد ، شاہ فیصل احمد، جنید احمد اور عبداللہ احمد ہوئے۔ آپ ؒ نے اپنے صاحبزادے کو ایم سی ہائی اسکول میں عربی ٹیچر لگوایا جہاں حضرت قاری سعید احمد اسد دینی خدمات کے ساتھ عربی پڑھاتےاور جرنل اسٹور کی دکان چلاتے رہے۔ اسکے علاوہ آپؒ نے بھینسیں اور سفید رنگ کی بکریاں رکھی ہوئی تھیں جن کا کام اپنے حاحبزادے اور پوتوں کے ذمہ لگایا۔ اور نصیحت کی کے ہمیشہ حلال روزی کماکر دینی خدمات سرانجام دیں۔ اسی طرح کچھ عرصہ کے بعد آپ ؒ بیمار ہوگئے بیماری کی حالت میں یہ حالت تھی آپ ؒ کی کے درس حدیث چارپائی پر لیٹ کر پڑھاتے اور قرآن کے سپارے سناتے اسی دوران آپ ؒ نے ایک وصیت لکھی 1وصیت نمبر 1 کہ میں اگر فوت ہوجاؤں تو میرا جنازہ میرا بیٹا قاری سعید احمد اسد پڑھائے 2 وصیت نمبر 2 کہ میری رسم قل نہ کی جائے 3 وصیت نمبر 3 کہ مجھے مدرسہ کے اندر راستے کے ساتھ دفن کیا جائے 4 وصیت نمبر 4 میرے استاد محتر م شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کا ہدیہ کردا کرتا میں کفن دیا جائے پھر ایک دن ایک آپ ؒ اچانک بیماری سے نکل اٹھے اور گھر والوں کو فرمایا کہ مجھے غسل کرواؤ اور نیا سفید رنگ کے کپڑے پہناؤ جب غسل کرلیا اور سفیدرنگ کے کپڑے پہن کر بہت زیادہ عطر لگایا اور اپنے پوتے حافظ جنید احمد کو بلایا کے زبانی آٹھ سپارے سنائے بھی اور سنے بھی یہاں تک کے نماز عصر کا وقت ہوگیا ۔ جب آپ نے قرآن پاک کے آٹھ سپارےمکمل کرلئے تو اچانک آپ بہت زیادہ مسکرانے لگے اتنے مسکرائے کہ گھر والے حیران ہوگئے گھر والوں نے پوچا کے آپ اتنا زیادہ کیوں ہنس اور مسکرا رہے ہیں ۔ تو آپ نے اچانک اپنا منہ اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاے اور ساتھ ہی کلمہ شہادت پڑھنے لگے أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله. پڑھا اور آپ کو فالج کا دوسرا شدید حملہ ہوا اور آپ چارپائی پر بیہوش ہوگئے ۔ اور یہی فالج کا حملہ آپ کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ یہ دن 22 مارچ سن 1986 کا دن تھا آپ رات 11بج کر 55 منٹ تک بیہوش رہے۔کہ اچانک ہوش میں آئے اور آنکھیں کھول کر اپنے صاحبزادے اور پوتوں اور باقی گھروالوں کی طرف دیکھا اور پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے آپ اس فانی دنیا جہاں سے رخصت فرماگئے۔ آدھی رات کو مسجد ابوبکر صدیق ؓ المعروف بگڑوالی سےمحمد خان خانیال نے اعلان کیا کہ نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ اعلان کیا جاتاہے کہ امام النحو استاد العلماء شیخ التفسیر والحدیث پیر طریقت رہبر شریعت حضرت مولانا محمد اسماعیل صابری اس فانی دنیا سے رخصت فرماگئے۔ جب لوگوں نے یہ اعلان سنا تو دہاڑیں مارمارکر گھروں سے نکل آئے اور تمام مکاتب فکر کی مساجد میں بشمول دارالعوم ٹرسٹ کربلا گروٹ روڈ خوشاب سے آپ ؒ کی وفات کا اعلان ہوا ۔ اور 23 مارچ 1986 دن 2 بجے آپ ؒ کی نماز جنازہ آپ کے صاحبزادے قاری سعید احمد اسد نے پڑھایا جنازہ میں مولانا فضل الرحمٰن ، مولانا علامہ عبدالستار تونسوی اور دیگر علماء کرام نے شرکت کی آپ کی وصیت کے مطابق آپ ؒ کو شیخ سید حسین احمد مدنی ؒ کے کرتا مبارک میں کفن دے کر مدرسہ ہی میں دفن کیا گیااور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی رسم قل نہیں ہوئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ ؒ کی قبر مبارک پر کڑوڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین آپ ؒ کی وفات کے بعد آپ ؒ کے صاحبزادہ مدرسہ سیاست اور تحریکیں چلائیں اور دینی خدمات انجام دیں۔ اب جامع عریبہ تعلیم السلام آپ ؒ کے صاحبزادے قاری سعید احمد اسد کی سرپرستی میں مولانا عبداللہ احمد اخونزادہ محتمم مدرسہ ہیں اور سیاست میں جمعیت علماء اسلام کے ضلعی امیر ہیں اور دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ صدر مدرس حضرت اقدس مولانا جنید احمد اخونزادہ کی سرپرستی میں حدیث و تفسیر و ترجمہ کی کلاسیں پڑھائی جاتی ہیں۔ آپ شیخ امام النحّو استاذالعلماء مولانا محمد اسماعیل صابری ؒ کی یہ تحریرخانزادہ سعد فیصل خان نے انتہائی محنت و محبت اور دل جوئی سے تحریرو ویڈیو اڈیٹنگ کی ہے۔ آواز خانزادہ دلاور فیصل خان تعاون شاہ فیصل احمد الفیصل پراپرٹی سروسزآسیہ مقصود زیرسرپرستی حضرت مولانا قاری سعید احمد اسد اخونزادہ دامت برکاتہم العالیہ